Nowshera District

Nowshera District
District
Country Pakistan
Province Khyber-Pakhtunkhwa
District Nowshera District
Headquarters Nowshera
Union Councils 47
Government
  District Nazim Liaquat Khattak
Area
  Total 1,748 km2 (675 sq mi)
Population (2014)
  Total 1,394,000
  Density 500/km2 (1,000/sq mi)
Time zone PST (UTC+5)

Nowshera (Pashto: نوشار/نوشہرہ) is a district in the Khyber Pakhtunkhwa Province of Pakistan, its capital is Nowshera.

Previously it was known as Nowkhaar Province till it was annexed into British India via the Durand Line Agreement.

Prior to its establishment as a separate district in 1990, Nowshera was part of Peshawar District.[1] The district was also part of the Peshawar Division until the reforms of The Government of Pakistan.

Geography

Map of Nowshera district

1,748 km² total area. The population density is 608 persons per square kilometre. The total agricultural area is 52,540 hectares. The main source of income of the region is agriculture.

Nowshera was a tehsil (sub division) of Peshawar until 1988, when it became a district. It is bordered by Peshawar District to the West, Mardan District to the North, Charsadda District to the North West, Swabi District to the North East, Kohat District to the South, Orakzai Agency to the South West & Attock District to the East.

Demography

The population counted in the 1998 census was 874,000,.[2] The predominant first language was Pashto, spoken natively by 91% of the population.[3] The previous census of 1981 reported that in the tehsil of Nowshera, Pashto was the language of 88% of households, while Punjabi accounted for 4.3%, Hindko4.2%, and Urdu2.9%.[4]

Religion

Cities and towns

Tribes

Grand Trunk Road

The world famous and historical Grand Trunk Road runs through the Nowshera District.

Rivers

The following are the rivers which flow through the Nowshera District.

Parks

Some of the most famous parks are as follows.

Notable people

A list of some of the most prominent people from Nowshera District:

Mian Jamal Shah. Writer of Akbarpura (London)

Famous buildings

HAZRAT SYED ABDUL WAHAB (AKHUND PANJU BABA SAHIB (AKBARPURA)

Hospitals/medical facilities

There are many other Government Health Care Facilities, Rural Health Care Centres, Basic Health Units & Civil Dispensaries all over the district.

Highways and motorways

Economic Zone

After the launch of CPEC project, Rashakai village of Nowshera is now an Economic Zone of KPK.[5]

Shrines

Kaka Sahib the most well respected saint of Khyber Pukhtoonkhwa hails from Nowshera. His real name was Syed Kasteer Gul also known as Sheikh Rehamkar. He was descendant of Imam Jafar as Sadiq and his forefathers settled in this area some four generations ago. His descendants are known as Kakakhels. The family is highly respected in the Pashtun tribes and are respected even in the wildest tribal clans. They are big landlords and have an impressive presence in politics, military and civil bureaucracy.

Syed Abdul Wahab alias Akhund Panju Baba aka Baba Sahib was a famous Sufi and preacher of Islam. Thousands of Hindus embrace Islam on his hand. Baba sahib was migrated from Kalu Khan Sawabi area to Akbarpura, he started his teachings and preaching from the Misri Pura area of Akbarpura, where today his tomb is present. Baba Sahib Family is Syed and locally being called as Miangaan which still exists in the area. The Miangaan family is carrying on the Baba Sahib tasks of Preaching Islam till today, the present Gaddi Nasheen of the Akhund Panju Baba shrine is Peer Syed Obaid Ullah Shah S/O Syed Shamshad Ali Shah locally known as Pir Sb.

Sheikh Bahadur Baba shrine is in kanakhel and is visited daily by hundreds of devotees. He was father of Kaka Sahib and a very pious saint of his time.

Nandrak is Beautiful and Green Village of Distt Nowshera and the peoples of this village is hospitable and respectable and cooprative,(Muhammad Naeem Al Nandraki)

Shaikh Shahbaz BaBa, famous on Shaikh Baba, one of prominent shrine (ziyat) of this district Nowshera, the shrine of Shaikh Shahbaz BaBa is situated in Pabbi

حضرت سید عبدالوہاب صاحب المعروف اخون پنجو صاحبؒ ۹۴۵؁ھ تا ۱۰۴۰؁ھ 1040 ,,,, 1538---1630 آپ کا نام نامی و اسم گرامی سید عبدالوہاب ہے۔ اور والد گرامی کا نام سید غازی باباؒہے۔ آپ اخون پنجو باباؒ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کو کتب تاریخ و سیر میں شیخ پنجو سنبھلی لکھتے ہیں۔ نیز آپ بھی اپنی نسبت سنبھل سے کرتے، آپ کے جد بزرگوار وہاں سے ہی آئے تھے ، اسی لئے آئین اکبری میں شیخ ابو الفضل نے (جو کہ جلا ل الدین اکبر کا وزیر تھا) آپ کو شیخ پنجو سنبھلی لکھا ہے ۔ پنجو آپ کو اس لئے کہا گیا کہ جب پیروان پیر تاریکی ( جس کا نام بازید انصاری اور لقب پیرروشن دین تھا)کو آپ نے ارشاد و ہدایت شروع کی تو چونکہ وہ احکام شریعت اسلامیہ پر عمل نہیں کرتے تھے بلکہ استہزاء کیا کرتے تھے ۔ اس لئے آپ نے ان کو سب سے پہلے پانچ بناء اسلام سے تعلیم دینا شروع کیا، انھوں نے بوجہ مخالفت ازروئے تحقیر کے آپ کو پنجو بابا کہنا شروع کر دیا۔ جب آپ کی خدمت میں یہ بات کہی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس سے بہتر اور کیا ہو گا کہ میرالقب ’’ پانچ بناء اسلام ‘‘ ہو اور دعا فرمائی کہ اے اللہ قیامت تک میرا یہی لقب ہو ، چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ آپ کے بزرگوار عرب سے آکر ہندوستان میں بمقام سنبھل آباد ہوئے ۔ جب سلطنت لودھیہ کو زوال ہوا تو آپ کے والد محترم جناب سید غازی بابا صاحبؒ براستہ چھچھ ہزارہ ہوتے ہوئے علاقہ یوسف زئی میں بمقام ترکی قیام کیا۔ جناب سید غازی باباصاحبؒ نہایت ہی پرہیز گار اور زاہد تھے ۔ مذکورہ گاؤں میں قناعت اور عزلت کے ساتھ وقت بسر کرتے، جناب صالح محمد صاحب المعروف ’’دیوانہ باباؒ ‘‘ کی خالہ سے شادی کی اور اکبر بادشاہ کے زمانہ میں پشاور شہر میں آکر سکونت پذیر ہوئے اور یہیں آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کا مزار قلعہ بالا حصار کے نیچے وائرلیس گراؤنڈ میں درختوں کی گھنی چھاؤں میں موجود ہے۔ ۹۴۵؁ھ میں جناب حضرت سید عبدالوہاب صاحب المعروف اخون پنجو باباؒ موضع الکائے علاقہ یوسف زئی میں پیدا ہوئے ۔ آپ علم لدنی رکھتے تھے ۔ مگر پھر بھی ظاہر ی طور پر آپ نے علوم ظاہری سے فراغت حاصل کی۔ موضع چوہا گجر میں ان دنوں ایک بڑے عالم دین قاضی تھے ۔ ان کی خدمت میں پہنچ کر علوم متداولہ کو پڑھا ۔اس کے بعد ہندوستان تشریف لے گئے اور کافی عرصہ تک علماء سے پڑھتے رہے۔ ان ایام میں آپ زیادہ عرصہ روھیل کھنڈ میں مقیم رہے۔ تحصیل علم کے بعد واپس صوبہ سرحد لوٹے۔ ۹۹۰؁ھ میں بعمر ۴۵ سال اپنے چھوٹے بھائی کے ہمراہ موضع اکبر پورہ میں مستقل قیام اختیار کیا اور مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوئے۔حضرت علامہ شمس العلما ء قاضی میر احمد شاہ صاحب رضوانی تحفۃ الاولیاء میں فرماتے ہیں کہ تقریباً علما و مشاہیر وقت نے آپ سے علوم ظاہری میں دستار فضلیت یعنی سند حاصل کی ۔ آپ نے کافی عرصہ تفسیر ، حدیث، فقہ ،اصول ، منطق اور اخلاق کا درس دیا اور انتہائی جان فشانی کے ساتھ تبلیغ و اشاعت شریعت مطہرہ میں منہمک رہے۔ اکبر پورہ ان دنوں داؤد زئی قوم کا مرکز تھا ۔ اس گاؤں میں چالیس محلے تھے، ہر ایک محلہ میں ایک حجرہ تھا، ہر ایک محلہ کے لوگ چرس اور بھنگ پی کر رباب لئے ہوئے دن رات ان حجروں میں مست رہتے ، اور گاتے بجاتے ، دین اسلام سنت رسول کریم ﷺ اور یاد الہٰی سے قطعاً بے پرواہ ہوگئے تھے ۔ اتنے بڑے گاؤں میں ایک بھی قابل ذکر مسجد نہ تھی۔ اس تمام علاقہ کے لوگ پیرروشن المعروف پیرتاریکی کے خلیفہ ’’ سرمست ‘‘ کے مرید اور پیرو تھے۔ جناب اخون پنجو صاحبؒ نے تمام کاموں سے پہلے یہ کام کیا کہ وہاں ایک جامع مسجد تعمیر کی۔ نماز جمعہ کا قیام کیا۔ امر باالمعروف کے لئے مختلف علاقوں میں جماعتوں کو بھیجا ، اور اس بے خبر قوم کو جو فسق و فجور میں مبتلا تھی وعظ و نصیحت کرنا شروع کر دیا۔ عوام کے لئے آپ نے ابتداء پانچ بنائے اسلام سے کام شروع کیا۔ طلباء کے لئے درس و تدریس کا انتظام کیا ۔ سلوک و معرفت کے حصول کے لئے جو صاحبان طلب آئے ان کے لئے الگ انتظام کیا۔ آپ کی اس خدمت دین کا اتنا شہرہ ہوا کہ لوگ دور دور سے آنے لگے ۔ اور حسب توفبýÿÿÿ ¡¢£¤¥¦§¨©ª«¬­®¯°±²³´µ¶·¸¹º»¼½¾¿ÀÁÂÃÄÅÆÇÈÉÊËÌÍÎÏÐÑÒÓÔÕÖ×ØÙÚÛÜÝÞßàáâãäåæçèéêëìíîïðñòóôõö÷øùúûüýþÿ¥ق علوم حاصل کرنے لگے ۔ نیز وہ علماء جو کہ ہندوستان اور دوسرے علماء سے سند فراغت حاصل کر لیتے تھے ۔ تبرکا آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بھی تکمیل کی سند لیتے ۔ ۹۹۳؁ھ میں جناب میرا ابوالفتح صاحب اقنپاچی(جو کہ شیخ المشائخ جلال الدین صاحب تھانیسریؒ کے خلیفہ تھے) پشاور شہر سے ہوتے ہوئے اکبر پورہ تشریف لائے اور آپ نے طریقہ عالیہ چشتیہ میں ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت امیر ابوالفتح قنپاچی ؒ نے آپ کو خلافت سے نواز ا ، اور علم اور توحید باطنی سے مالا مال کر دیا۔ بیعت ہونے کے بعد آپ اب اوراد و ظائف سے فارغ اوقات دینیات کی تعلیم میں صرف کرتے ۔ اور باقی اوقات عبادت و ریاضت، ذکر و فکر ، مجاہدہ و مراقبہ میں گزارتے۔ بیعت ہونے کے بعد صائم الدھر اور قائم اللیل ہوگئے۔ ذکر و فکر سے بسا اوقات آپ پر محویت کا عالم بھی طاری ہوتا۔ جس وقت آپ پر سکر کی حالت ہوتی تو خادم آپ کو بازؤں سے پکڑ کر ’’ یا حق یا حق ‘‘ کہہ کر اٹھاتے تو آپ اٹھ کر نماز پڑھ لیتے ۔ نماز سے فارغ ہو کر پھر بے ہوش ہو جاتے اور ما سوا ء اللہ سے بے خبر ہوجاتے۔ آپ کا معمول تھا کہ صبح کی نماز کے بعد چاشت کی نماز تک ’’ذکر ‘‘ میں مصروف رہتے دوپہر تک ’’ حبس دم‘‘ اور دیگر اوراد کرتے، نماز ظہر کے بعد قیلولہ کرتے ، قیلولہ کرنے کے بعد علوم متداولہ کی کتابیں پڑھاتے ۔ عصر سے مغرب تک ’’ صلوٰۃ الوسطی ‘‘ میں مشغول رہتے۔ مغرب کے بعد قرآن حکیم کا درس فرماتے۔ عشاء کے بعد اورادو وظائف اور مراقبات میں مشغول ہوتے۔ گویا آپ کا تمام وقت یاد الہٰی ، اطاعت خدا جل جلالہ اور رسول ﷺ اور مخلوق خدا کی خدمت میں گزرتا۔ آپ پر’’ عشق الہٰی‘‘ کا اتنا غلبہ تھا کہ چہرۂ انور سے آگ کے شعلے نظر آتے تھے۔ سخت سردیوں کے دنوں میں آپ صرف ایک ململ کا کرتا پہنتے ۔ آپ کے مقربین سے ایک صاحب ’’ جناب میاں علی باباؒ فرماتے ہیں کہ انتہائی سردیوں کے ایام میں آپ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ ایک باریک کرتہ اور ایک عمامہ پہنے ہوئے تھے۔ دیکھتے دیکھتے آپ پر عشق الہٰی کا غلبہ ہوا اور آپ کی پیشانی مبارک اور چہرۂ انور سے پسینہ بہنا شروع ہوگیا۔ عشاء کی نماز کے بعد آپ گھر سے اسی عالم میں نکلے ، میں بھی آپ کے پیچھے ہولیا۔ آپ کمال استغراق اور محویت کے ساتھ عشق الٰہی میں مست تھے ۔ تمام رات زخی چار باغ سے لے کر جبہ تک آتے جاتے جمال الٰہی اور عشق الٰہی میں مگن تھے۔ جب صبح ہوئی تو نہایت ادب کے ساتھ میں نے عرض کیا حضوررات کو عجب کیفیت تھی ، آپ نے فرمایا ۔ اے علی ! یہ نکتہ یاد رکھ جو اسرار ربانی سے ہے ، منصور نے محبت الٰہی کا جام چاہا اور ضبط نہ کرسکا اور حتی کہ ’’ انا الحق ‘‘ کا دعویٰ کر دیا ۔ مگر تم نے دیکھا کہ محبت کے جام پر جام آج مجھے عنایت کئے گئے اور کتنے ہی خم خالی کر دئیے گئے۔ مگر ایک قطرہ بھی باہر نہ گرا‘‘۔ چونکہ آپ کے رخ انور سے ہر وقت انوار الٰہی کی بارش رہتی اس لئے کوئی بھی جی بھر کر آپ کے چہرۂ ا نور کو نہ دیکھ سکتا ، اور جو بھی آپ کے رخ اقدس کو ’’ توجہ‘‘ اور ہمت سے دیکھ لیتا، تو عارف کامل ہوجاتا۔ اگر کسی بھی مشرک کی نظر آپ کے نورانی چہر ہ پر پڑجاتی تو فوراً کلمہ توحید پڑھ لیتا۔ یہی وجہ تھی کہ ہندو آپ کا نام سنتے ہی چھپ جاتے۔ ایک بار ہشتنگر سے ہندوؤں کی ایک برات اکبر پورہ آئی ۔ اس برات سے تقریباً دن نوجوان آپ کی مسجد میں آکر آپ سے ملاقی ہوئے۔ آپ کا چہرہ دیکھ کر بیہوش ہوگئے اور تڑپنے لگے ، جب ان کو ہوش آیا تو مسلمان ہوگئے۔ اور آج تک اس شیخ کا گھر اکبر پورہ میں آباد ہے۔ گویا کہ آپ کی ذات والا صفات میں اتنی ثاثیر اور اتنا جذبہ تھا کہ جو بھی اس وقت آپ کے سامنے آتا وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ جب آپ کے علم ظاہری و فیوضات باطنی کا شہر ہ چاروں طرف پھیل گیا۔ تو معاصر علماء اور مشائخ نے آپ کی مخالفت کی اور آپ سے بحث و مناظرہ کی ٹھانی اور اکٹھے ہو کر فیصلہ کیا کہ آپ کی مسجد میں جا کر آپ سے مناظرہ کریں اور کسی قسم کی آپ کی تعظیم و تکریم نہ کریں۔ جب وہ آپ کی مسجد میں پہنچے تو اس وقت آپ گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ آپ کے فرزند ارجمند سید عثمان صاحبؒ نے آپ کو ان کے آنے کی خبر دی۔ آپ تشریف لائے ۔ ان علماء نے آپ کا رخ انور دیکھتے ہی فوراً قدمبوسی کی ۔ اور یک بارگی لاالہٰ کا نعرہ لگا کر بے ہوش ہوگئے، حتی کہ نماز ظہر کا وقت آگیا ، جب ظہر کے نوافل سے فارغ ہوئے تو میاں علی صاحب نے عرض کیا کہ حضور اگر ان کی یہی حالت رہی تو شریعت اور علم کی بہت بے قدری ہوگی اور بے حرمتی ۔ آپ ؒ نے ان پر توجہ کر کے ’’ الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگایا تو وہ سب ہوش میں آگئے اور تائب ہو کر مرید ہوئے۔ آپ میں اتنی سخاوت تھی کہ جو بھی آپ کے پاس حاجتمند آیا خالی نہیں لوٹا۔آپ کے لنگر سے امیر و غریب سب کوبرابر کھانا ملتا ، مفلوک الحال اور غربا کی امداد کرنا آپ کا خاص وصف تھا۔ استغناء کا یہ عالم تھا کہ امیر وحکام سے تحفے قبول نہ فرماتے ۔ بادشاہ مغلیہ کی طرف سے کئی بار لنگر کے مصارف کے لئے پیش کش کی گئی ۔ مگر آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے حضرت پیربابا ؒ اور اخون درویزہ ؒ کی طرح بایزید انصاری الملقب پیرروشن اور ان کے پیروان کے خلاف تبلیغی اور عملی طور پر کام کیا ۔ چونکہ اس علاقہ میں اس کے متبعین بکثرت تھے، اس لئے آپ ان کی مخالفت کا پورا نشانہ تھے۔ مگر آپ نے ہمت استقلال اور کرامت کے ذریعہ اس علاقہ کو ان بے راہ رو لوگوں سے پاک کیا اور ان کو گمراہی کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی نورانی منزلوں پر ڈال دیا۔ چرس، بھنگ اور افیون جیسے رسوائے زمانہ نشوں سے انھیں باز رکھا اور لوٹایا۔ چنگ و رباب سے چھٹکارا دلا کر یاد الٰہی میں مصروف کر دیا۔ بد اعمالیوں اور بداخلاقیوں سے توبہ کروا کے نیک اعمال وصاحب اخلاق حمیدہ بنایا۔ صاحب تحفۃ الاولیاء فرماتے ہیں کہ ۹۹۳؁ھ میں بایزید انصاری الملقب پیرروشن نے جب حکومت مغلیہ کے خلاف شورش کی تو جلال الدین اکبر خود مقابلہ کے لئے آیا۔ اس سفر میں اکبر بادشاہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ کھجور والی مسجد میں مقیم تھے۔ طالب دعا ہوا، آپ نے توجہ کاملہ کے ساتھ دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے اکبر کو فتح و ظفر سے نوازا اورتاریکیوں کو پراگندہ کیا۔ اس وقت اکبر نے آپ کی خدمت میں تحائف پیش کئے تو آپ نے کلی طورپر لینے سے انکار کر دیا۔ اکبر پورہ کے بالکل ساتھ دریائے باڑہ بہتا ہے۔ آپ کے زمانہ میں اس دریائے باڑہ میں ایک عظیم سیلاب آیا۔ اس وقت پیرسرمست خلیفہ پیرروشن کا بہت بہت چرچا تھا ا اور اس کے متبعین اس کی نام نہاد کرامات اور مکشوفات کا ہر حجرہ میں بیٹھ کر خوب پروپیگنڈا کرتے تھے۔ لوگ اس سیلاب سے عاجز آکر پیر سر مست کے پاس روحانی مدد طلب کر نے کے لئے گئے تاکہ وہ کرامات کے ذریعہ گاؤں کو تباہی سے بچالے ۔ اس نے اپنی بھنگ رگڑنے کا ’’ کتلہ‘‘ ان لوگوں کو دیا اور کہا کہ جاؤ اور گاؤں کی طرف بند باندھ کر یہ میرا کتکہ کھڑا در دو ، سیلاب کم ہو جائے گا اور وہ پانی گاؤں کی طرف نہیں آئے گا۔ ہزار ہا لوگوں اس کی یہ کرامت دیکھنے کے لئے جمع ہوگئے کتکہ رکھا گیا مگر پانی نہ رکا۔ اب پیر سرمست خود آیا اور نہایت دلیری کے ساتھ بند پر کھڑا ہوگیا ۔ مگر پانی کے ایک ہی دباؤ نے پیر کے ساتھ بند کو بہا دیا۔ پیرسرمست غوطے پہ غوطہ کھانے لگا۔ اس کے مریدوں نے پیرسرمست کو نکالا ، عین اسی وقت حضرت اخون پنجو بابا صاحبؒ نے اپنا عصا حضرت میاں علی باباؒ کو دیا اور فرمایا اس عصا کو پانی میں کھڑا کر دو، انشاء اللہ خداوند تعالیٰ فضل و کرم کر دے گا۔ جب حضرت میاں علی بابا نے عصا پانی میں کھڑا کر دیا۔ تو فوراً بند بندھ گیا اور سیلاب کم ہوگیا۔ گاؤں تباہی سے بچ گیا۔ جب ان ہزار ہا لوگوں نے آپ کی یہ کھلی اور روشن کرامت دیکھی تو پیرروشن المعروف پیرتاریکی کے خلیفہ سے کل طور پر برگشتہ ہوگئے او ر ہزاروں کی تعداد میں آکہ حلقہ مریدین میں شامل ہوگئے۔ تحریک روشنائی جو حکومت وقت کی لڑائیوں ، قتل و غارت ، مشائخ کرام کے بحث و مناظرے اور جد وجہد سے ختم نہ ہو سکی ۔ اس علاقہ میں آپ کی صرف ایک کرامت نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دی۔ آپ کی کرامات سے ایک زندہ کرامت یہ کہ اس وقت آپ کی ایک مسجد اکبر پورہ میں موجود ہے ۔ جس کو ہزاروں سیاح او رمؤرخ ، ہر قوم ہر مذہب اور ہرملت کے افراد دیکھنے آتے ہیں اور کسی کو اس سے انکار نہیں ہوسکتا۔ حضرت حاجی دریا خان ( جن کا مزار موضع چمکنی تحصیل پشاور میں مرجع عوام و خواص ہے) نے ایک بار آپ سے سوال کیاکہ قیامت کے علامات کیا ہیں۔ آپ نے جواب دیا ’’ میری مسجد کا محراب زمین میں جب غرق ہوجائے گا تو قیامت آجائے گی‘‘۔ اب یہ بات مشاہدہ میں آرہی ہے کہ محراب آہستہ آہستہ بتدریج زمین میں دھنس رہا ہے اور اس وقت تقریبا تہائی حصہ دھنس چکا ہے ۔ و اللہ اعلم با الصواب آپ کی وفات شاہ جہاں بادشاہ کے عہد میں بعمر ۹۵ سال ۱۰۴۰؁ھ میں ہوئی ۔ اور اس آفتاب علم ظاہر ی و باطنی ، قطب الاقطاب ، غوث وقت کو اکبر پورہ سے تقریباً ایک میل سڑک شاہی کی طرف سپرد خاک کیا گیا ۔ ہزار ہا لوگ آپ کی زیادت کے لئے آتے ہیں اور بڑے بڑے مشائخ نے آپ سے فیض لیا اور اب بھی فیضیاب ہوتے ہیں۔ آپ کی تجہیز و تکفین میان عثمان صاحبؒ اخون سالک صاحب کابگرامیؒ ، میاں علی بابا صاحبؒ ، حضرت شیخ رحمکار المعروف حضرت کاکا صاحبؒ ، اور شیخ عبدالغفور صاحب المعروف چل گزی باباؒ نے کی۔ تذکرہ علماء و مشائخ سرحد جلد اوّل (فقیر ) محمد امیر شاہ قادری (سجادہ نشین) یکہ توت پشاور

Wars and battles

Cantonments

These cantonments were created by the British Raj during British rule. There are three cantonments in Nowshera District:

Union councils

Nowshera District is divided into 47 Union Councils.

The councils are:

The largest by area is Nizampur & the smallest by area is Pabbi.

Provincial and National Assembly Seats

The district has 5 Provincial Seats in The Khyber-Pakhtunkhwa Assembly.

They are:

The district has 2 National Assembly Seats in The National Assembly of Pakistan.

They are:

The District is currently represented by Pakistan Tehreek-e-Insaaf who won all 7 Seats in the recent elections.

Military installations in Nowshera District

See also

References

Bibliography

Coordinates: 33°56′N 71°59′E / 33.933°N 71.983°E / 33.933; 71.983

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.